دیوار مہربانی
چند روز قبل شہر کراچی میں جگہ جگہ سڑک کنارے ایک سیاہ بورڈلوگوں کی توجہ کا مرکز بنا جس پر دیوار مہربانی لکھا گیا تھا ا ور چند گز لمبی تار باندھ کر یا کیلیں ٹھوک کر اس پر کپڑوں کے آٹھ دس جوڑے لٹکائے ہوئے تھے جگہ جگہ سے لوگ وہاں آکرکپڑے لٹکا کر چلے جاتے تھے معلوم ہوا کہ یہ دیوار اس لئے بنائی گئی ہے تاکہ وہ سفید پوش افراد جن کے پاس پہننے کے لئے کپڑے میسر نہیں وہ اس دیوار مہربانی سے با آسانی میسر
چند روز قبل شہر کراچی میں جگہ جگہ سڑک کنارے ایک سیاہ بورڈلوگوں کی توجہ کا مرکز بنا جس پر دیوار مہربانی لکھا گیا تھا ا ور چند گز لمبی تار باندھ کر یا کیلیں ٹھوک کر اس پر کپڑوں کے آٹھ دس جوڑے لٹکائے ہوئے تھے جگہ جگہ سے لوگ وہاں آکرکپڑے لٹکا کر چلے جاتے تھے معلوم ہوا کہ یہ دیوار اس لئے بنائی گئی ہے تاکہ وہ سفید پوش افراد جن کے پاس پہننے کے لئے کپڑے میسر نہیں وہ اس دیوار مہربانی سے با آسانی میسر
آسکیں ۔
اصل میں دیوار مہربانی کی اصطلا ح ہمارے ہاں ایران سے آئی ہے ،یہ ترکیب بھی فارسی ہے کہا جاتا ہے کہ ایران کے ایک نا معلوم شخص نے یہ
سلسلہ شروع کیا ۔اس نیک دل شخص نے محلے کی کسی دیوار پر دیوار مہر بانی لکھ دیا اور وہاں پر دو تین کھوٹیاں لگا کر استعمال شدہ جیکٹ،کوٹ،سوئیٹر وغیرہ لٹکادیئے اور ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ جس کو ضرورت ہے وہ بلا تکلف لے جائے ۔ضرورت مندوں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور دعائیں دیں۔یہ رجحان چل نکلا اور ایک کے بعد ایک دیوارمہربانی بننا شروع ہوگئیں ۔جب پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے خبریں لگانا شروع کیں اور کوریج دی تو مختلف شہروں میں اس تجربے کو دہرایا گیا اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ سلسلہ دوسرے ملکوں تک پھیلنا شروع ہوگیا اور کئی ملکوں نے اس تجربے کو اپنایا جس میں چین سرفہرست ہے۔پاکستان میں بھی اس تجربہ سے استفادہ کیا جارہا ہے۔سب سے پہلے کوئٹہ میں اس کی پہل ہوئی ۔ایران جانے والے زائرین نے مشہد اور دوسرے شہروں میں یہ دیکھا اور پھر آکر اپنے ملک میں بھی اس تجربے کو
دہرانے کی کوشش کی ۔
دیوار مہربانی جیسی دیوار کو ایسے علاقوں میں بھی فروغ دینا چاہیئے جہاں غریب اور مستحق لوگوں کی آبادی ہے اور وہاں یقیناًایسے لوگ بھی موجودہیں جو سفید پوشی سے زندگی بسر کر رہے ہیں جو کسی سے مانگتے نہیں کسی سے مدد مانگنے میں عار محسوس کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ہمارے ہاں اس بات کا خدشہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو رات گئے بھی چیزوں کو غائب کر کے بیچنے کا فن رکھتے
ہیں ۔
دیوار مہربانی یوں تو ایک اچھا عمل ہے مگر اس عمل میں کوئی شخص ذمہ دار نہیں ۔لوگ کپڑے اور دیگر اشیاء یوں تو رکھ کر جاتے ہیں مگر وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہ اشیاء کوئی وہاں سے لے کر جائے اور مہنگے داموں میں فروغ کردے یا مستحق افراد تک یہ اشیاء پہنچ بھی رہیں ہیں یا نہیں یا باحیثیت افرادنے ان اشیاء کو لے جاکر کوئی کاروبار شروع کردیا ہے ۔یہ تمام وجوہات کچھ افراد کو اس دیوار مہربانی پراپنا سامان رکھنے سے روک رہی ہیں ۔
اگر دیوار مہربانی کے معاشرے پر پڑنے والے منفی اور مثبت اثرات کا موازنہ کیا جائے تواس کے مثبت اثرات ذیادہ نظر آتے ہیں اگر اس کے منفی اثرات زیادہ ہوتے تو دیوار مہربانی کا یہ کانسیپٹ اتنی تیزی سے دوسرے ممالک تک نہ پھیلتا۔لحاظ ہمیں اس دیوار مہربانی کے عمل کو فروغ دینا
چاہیے اور اس عمل کو شہری علاقوں کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی پھیلانا چاہیے۔
تحریر: انیقہ معین
No comments:
Post a Comment