تعلیم ملک کا مستقبل یا ایک
مسئلہ؟
تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق
ہے ۔آئین پاکستان کے مطابق پاکستان کے ہر بچے کو میڑک تک کی تعلیم کی مفت فراہمی
حکومت کی ذمہ داری
ہے مگر اس کے باوجود اب تک اس عمل کو ممکن نہیں بنایا جاسکا اور
آ ج بھی پاکستان کے کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہیں ۔ہمارے ملک کی شراح خواندگی ۵۵
فیصد ہے جس میں ۶۷فیصدشرح
خواندگی مردوں کی ہے اور بقیہ۴۲
فیصد میں خواتین شامل ہیں ۔عالمی سطح پر دیکھا
جائے تو دنیا کے ۱۲۰
ممالک میں سے ہمارا ملک ۱۱۳
نمبر پر ہے۔
ہمارے ملک کے کروڑوں بچے اور بچیوں کی تعلیم سے محرومی کی اصل وجہ تعلیم اخراجات ہیں جن کو پورا کرنا اب والدین کے بس میں نہیں رہا گورنمنٹ اسکولوں کا نظام حال سے بے حال اور بد سے بد تر ہے اساتذہ کی غیر حاضری اور بنیادی ضروریات سے محرومی بڑا مسئلہ ہے ہمارے ملک کے بیشتر عوام درمیانہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے لئے زندگی کی بنیادی ضرویات ہی پوراکرنا محال ہے وہ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کروانا بھی چاہیں تو کیسے؟ پرائیوٹ اسکولوں کی بھاری فیس ا دا بھی کریں تو کیسے ؟ اس کے علاوہ ہمارے ملک کی آبادی کے بیشتر حصہ میں دہی علاقے ہیں لیکن وہاں کی تعلیم اور اسکولوں کا جو نظام اور حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ،دیہات میں رہنے والے بچے جن کے ہاتھوں میں کتاب ہونی چاہیے وہ مزدوری کرتے دکھائی دیتے ہیں ان کا مستقبل کیا ہوگا یہ کسی کو معلوم نہیں ۔اس کے علاوہ ہمارے ملک کے تعلیمی معیار کو اگر دیکھا جائے تو گورنمنٹ اسکول ،پرائیوٹ اسکول،اے او لیول ہر جگہ پڑھنے والے طالب علموں کی صلاحیتیں ایک جیسی دیکھائی نہیں دیتی اور اس کی ذمہ داری صرف اور صرف ہماری حکومت پر ہی عائدہوتی ہے جو ملک میں بسنے والے تمام طالب علموں کوتعلیم کا ایک جیسا معیار فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے ،ہمارے ملک کی شرح خواندگی کم ہونے کی ایک وجہ حکومتی نااہلی بھی ہے۔
ہمارے ملک میں بہت سے گھوسٹ اسکول بھی موجود ہیں گھوسٹ اسکول سے مراد ایسے ناقابل عمل اسکول ہیں جن کا صرف کاغذی وجود موجود ہے اور اساتذہ کو کچھ نہ کرنے کی تنخواہیں دی جارہیں۔ ہمارے ملک میں تقریباََبارہ ہزارگھوسٹ اسکول موجود ہیں وزارت تعلیم کی نگرانی میں بی ای ایس سی کے بہت سے پروجیکٹ پر کام کرنے کے با وجود چالیس ایسے گھوسٹ ٹیچر موجود ہیں جنھیں تنخواہیں دی جا رہی ہیں ۔پانچ ہزار سے زائد گھوسٹ اسکول سندھ میں موجود ہیں جن کو ایک ارب۴۵ کڑور دیاجا رہا ہے گھوسٹ اسکول کی یہ لعنت پنجاب میں بھی موجود ہے جن میں سے ۵۸ ہزار گھوسٹ اسکول میں سے ۴۶۰ دوسرے مقاصد کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں۔
ہمارے ملک میں ایسے تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں جوصرف ایک خستہ حال عمارت کی شکل اختیار کئے ہوئے ہیں وہاں نہ بندہ ہے اور نہ ہی بندے کی کوئی ذات ہے ۔ صرف گندگی کا ڈھیر ہی ان اسکولوں کا مقدر بن چکا ہے۔اس کے علاوہ ایسے تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں جو کہ تعلیمی مقاصد حاصل کرنے کے لئے تعمیر کئے گئے ہیں مگر وہاں کوئی تعلیمی سرگرمیاں موجود نہیں اسکے باوجود ملکی تعلیمی بجٹ میں سے فنڈز وصول کررہے ہیں
اور ان نہ کارا تعلیمی اداروں میں جو سہولیات مہیہ کی
بھی گئی تھی وہ چوروں اورلٹیروں کی نظر ہوگئیں۔
حکومتی نمائندوں کے مطابق 97 سے 98 کے ایک لالہ عرصے کے دوران تعلیمی کرپشن کا صفایا کیا گیا تھا۔
ہمارے ملک کا تعلیمی نظام بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے اور ملک کی شرح خواندگی میں اضافہ ہونے کے بجائے مزید ۔ کمی واقع ہورہی ہے کیونکہ ملک کی
آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ غربت میں بھی مزید اضافہ ہورہا ہے اور خاندان کا ہر فرد
اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے روزگار کی تلا ش میں مصروف ہے جس سے ہمارا
نچلا طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے کیونکہ یہ طبقہ اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ
اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کر سکتے اور اس کے برعکس انہوں نے اپنے بچوں
کو بھی روزگا ر کمانے کے لئے مصروف عمل کردیا ہے ۔ ہمارے ملک کے لئے لمحہ فکریہ ہے
کہ پاکستان کے بچے اور بچیاں جو ملک کا سرمایہ ہیں تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے
محروم ہیں ۔
یوں تو ہمارے ملک پاکستان میں تعلیمی مسائل کی بہت تویل فہرست موجود ہے ۔ہم اپنے ملک کا تعلیمی نظام تو نہیں بدل سکتے لیکن اپنی استطا عت کے مطابق غیر تعلیمی یافتہ ایک بچے کو تعلیم کے ذیور سے نوازنے کی ذمہ د اری تو ضرور پوری کرسکتے ہیں ۔ صرف بیٹھے رہنے اور الزام تراشیاں کرنے سے مسائلی کا حل معلوم نہیں کیا جاسکتا بلکہ انفرادی طور پر ہر فرد کو اپنی اور اپنے اردگرد موجود تعلیمی مسائل کو حل کرنے کی بنیادی کوشش یقینی بنانا ہوگی۔
تحریر :انیقہ معین